انڈونیشیا میں روایت شکنی پر کمر عمر بچوں کی شادی

155

انڈونیشیا میں مقامی روایات کو توڑنے پر ایک 12 سالہ لڑکی اور 15 سالہ لڑکی کی زبردستی شادی کروادی گئی۔

مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ جوڑے نے روایت کو توڑتے ہوئے غروب آفتاب کے بعد ملاقات کی تھی جو خودساختہ قوانین کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ کم عمری میں شادی کا معاملہ لمبے عرصے سے زیر بحث رہا ہے جو ٹین ایجرز کی اس شادی کے بعد دوبارہ سامنے آگیا۔

15 سالہ سوہائیمی اور اس کی دوست 12 سالہ نور ہیراوتی کی شادی پر لڑکی کے ہی گھروالوں نے دباؤ ڈالا کیونکہ انہوں نے غروب آفتاب کے بعد ملاقات کرکے مقامی روایت توڑی تھیں۔

دونوں ایک ساتھ غروب آفتاب کے بعد گھر لوٹے تھے، تاہم روایات کی خلاف ورزی کرنے پر اب ان کے والدین کے پاس دونوں کی شادی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

واضح رہے کہ جب ان دونوں کے ایجاب و قبول کی تقریب میں درجنوں رشتہ دار شریک ہوئے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئی جس کے بعد کم عمری میں شادی کا معاملہ دوبارہ موضوع بحث آگیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈونیشیا میں کم عمری کی شادیوں پر پابندی لگانے والے مذہبی امور آفس نے اس شادی کی منظوری نہیں دی، تاہم اہلِ خانہ نے دونوں کو شادی شدہ سمجھ لیا ہے۔

علاوہ ازیں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ لڑکے کے والدین نے اس شادی کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔

ادھر متعلقہ گاؤں کے سربراہ نے سارا معاملہ دیکھ کر اپنی جان بچاتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ ہماری روایات کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوا، اگر آپ ایک لڑکی کے ساتھ باہر سے گھر دیر سے (غروب آفتاب کے بعد) واپس آؤ گے تو آپ کو اس سے شادی کرنی ہوگی۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے یہ شادی رکوانے کی کوشش کی لیکن بچوں کے والدین نے اصرار کیا کہ وہ شادی کروائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق اب یہ دونوں بچے بطور میاں بیوی سوہائیمی کے والدین کے گھر پر ہی رہ رہے ہیں۔

نوجوان پر لاگو یہ اپنی نوعیت کا منفرد کرفیو انڈونیشیا کے ساسک نسل کے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے جو زیادہ تر جزیرہ لمبوک میں رہتے ہیں۔

یہ قبیلہ اپنی بطور روایت شادی سے قبل ’دلہن کو اغوا‘ کرنے کے لیے بھی مشہور ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں