جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی رہنماؤں کا تنظیم کی موجودہ صورتحال پر زوم اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کےسینئر رہنماؤں نے شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سینئر بانی کارکنانِ کا تنظیم کی موجودہ صورتحال بالخصوص 18 نومبر کو سپریم کونسل کے اجلاس کے فیصلوں کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال پر مشاورت کے لیے آن لائن زوم اجلاس 5 دسمبر کو منعقد کیا گیا۔
اجلاس میں تنظیم کے سینئر ترین رہنما اور سابق سینئر وائس چیئرمین راجہ مظفر خان نے تنظیم کے سفارتی شعبے کے سربراہ پروفیسر ظفر خان یورپ، برطانیہ اور آزاد کشمیر گلگت بلتستان زون کے صدر اور بزرگ رہنما خواجہ سیف الدین سے ہونے والی مفصل گفتگو کی روشنی میں موجودہ صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔
بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر سے تنظیم کے بانی رہنماؤں ڈاکٹر الطاف قادری اور فاروق صدیقی نے بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر سے تنظیم کے قائدین اور سینئر مرکزی رہنماوں سے ہونے والی گفتگو اور مشاورت کے بعد اپنی مفصل رپورٹ پیش کی جبکہ سابق ممبران سپریم کونسل انجینئر قاسم کھوکھر اور حلیم خان نے بھی آزاد کشمیر میں موجود مختلف تنظیمی رہنماوں سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا۔
اجلاس کے شرکاء نے 18 نومبر کے تنظیمی فیصلوں کا آئینی سیاسی اور دیگر تمام پہلوؤں سے مفصل جائزہ لینے کے بعد اتفاق رائے سے طے کیا کہ اس غیر مقبول فیصلے سے لبریشن فرنٹ کی تنظیمی وحدت، تحریک آزادی اور تنظیم کے چیئرمین جناب محمد یسین ملک کی شخصیت پر شدید برے اثرات مرتب ہوئے بلکہ ایسے فیصلوں سے تنظیم کے چیئرمین کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
ایک ایسے وقت میں جب لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کڑی نگرانی میں دہلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں اور ان سے صرف ان کے وکیل فیملی ممبران کو ملاقات کی اجازت ہے جبکہ 20 مارچ کے بعد کورونا وباء کے باعث قیدیوں سے آمنے سامنے ملاقات پر پابندی ہے، اس لیے یسین ملک کے حوالے سے یہ تاثر دینا کہ اس غیر معمولی اور متنازعہ فیصلے کو ان کی تائید حاصل ہے درست نہیں۔
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے کہا کہ سرینگر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یسین ملک صاحب کو اس فیصلے کی کوئی خبر تک نہیں ہے اور نہ ہی ان سے اس سلسلے میں کوئی رائے مانگنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر سے لی جانے والی اطلاعات اور مفصل رپورٹ کے مطابق وہاں کی تنظیم، مرکزی عہدیداران اور ممبران سپریم کونسل کی اکثریت کو اس فیصلہ کا کوئی علم نہیں ہے اور بعض مرکزی رہنماؤں کے بقول انہوں نے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی کیونکہ مقبوضہ جموں کشمیر میں تنظیم پر پابندی کے باعث کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہوسکتی اور انہیں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اس اجلاس اور فیصلوں کی خبر ہوئی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں نے ان غیر مقبول فیصلوں کے بعد آزاد کشمیر اور بیرون ممالک تنظیم میں انتشار اور تنظیم کے زعماء کے درمیان اختلاف کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کو موجودہ تحریکی اور قومی تناظر میں پریشان کن اور نقصان دہ قرار دیا۔
اجلاس میں شریک بانیان تنظیم نے 18 نومبر کے فیصلے کو تنظیم کے آئین کے باب دوم آرٹیکل نمبر 8 کی جز (د) سیکشن 5 اور 6 سے متصادم قرار دیا اور مزید کہا کہ ایسا فیصلہ کرتے وقت آئین کے آرٹیکل 16 کی شک 7 سے راہنمائی نہیں لی گئی۔اس لیے ہماری رائے میں 18 نومبر کا فیصلہ غیر آئینی، غیر ضروری،غیر سیاسی اور بے وقت فیصلہ ہے۔
اس لیے یہ اجلاس متفقہ طور فیصلہ کرنے والوں سے کہتا ہے کہ وہ کارکنان جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو مزید تقسیم سے بچانے اور ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے 18 نومبر کا فیصلہ واپس لیں اور تمام زونز کی مشاورت سے مسائل کو جمہوری انداز میں حل کیا جائے۔
اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ من پسند اور غیر جمہوری فیصلہ سے پہنچے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اجلاس کی سفارشات پر ایک ہفتہ کے اندر عملدرآمد کرکے اعلیٰ ظرفی اور زمہ داری کا ثبوت دیا جائے۔ اجلاس نے متفقہ طور پر کہا کہ یہ تنظیم شہیدوں اور قربانیاں دینے والے کارکنان کی تنظیم ہے۔
اس لیے شہیدوں کے لہو کی امانت دار تنظیم کے تقدس کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ارمانوں کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
اجلاس نے واضح کہا کہ کوئی بھی فرد، گروپ یا ٹولہ اس تنظیم کا وارث اور مالک ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسا دعویٰ کسی کو کرنا چاہیے۔