قیامتوں کا حقدار صرف مسلمان ہی کیوں؟

97

(گزشتہ سے پیوستہ) یورپی یونین کے ایک عہدیدارکے بقول ہمارامقصداسلام کے حوالے سے یورپی یونین کے مؤقف کوواضح کرنا اوراس امرکویقینی بناناہے کہ دہشت گردی کارشتہ کسی مخصوص مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔حالیہ کوشش کامقصدایسے الفاظ کوفروغ دینا ہے، جن سے غلط فہمی پیدانہ ہواور خیالات کی غلط ترجمانی سے بچاجاسکے ۔ یورپی یونین کے واقفانِ حال کاکہناہے کہ اس کوشش کے نتیجے میںاسلامی دہشت گردی اور بنیاد پر ستی جیسی اصطلاحات کوترک کر دیا جائے گا جنہیں ناقدین کے بقول یورپی یونین کے عہدیداران مسلم دنیا میں رہنے والے یاوہاں سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
عوامی سطح پر بیانات کیلئے مبینہ غیرجذباتی زبان کی روسے عہدیداروں کوجہادسے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط برتنی ہوگی۔ اگرچہ اس وقت مسلم دنیاکی بعض تنظیمیں اس لفظ کو غیر مسلموں کے خلاف جنگ کے مفہوم میں استعمال کرتی ہیں،تاہم بہت سے مسلمانوں کاکہناہے کہ اس کامطلب ایک داخلی ،روحانی اورظلم واستبداد کے خلاف جدوجہدہے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ برس جون میں برسلزمیں یورپی سربراہان نے اس کی تائیدکی ہے۔ تاہم یورپی پارلیمنٹ کے کئی ارکان کے نزدیک اسے کوئی فوری اقدام نہیں کہاجاسکتا۔ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے عہدیداروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے دہشت گرد گروہوں سے متعلق اظہارخیال کرتے ہوئے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرناچاہیے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یورپ میں لوگ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے تشدد کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ امریکا ویورپ میں رونما ہونے والے واقعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کشمیر اور فلسطینی عوام کی بے چینی، اضطراب اور ان پرہونے والے ظلم وستم کونہ روکا گیاتواس کے مضراثرات اب ساری دنیا کو متاثرکریں گے۔ گزشتہ سال فرانس کے مسلم نوجوانوں کااحتجاج بھی دراصل اس حقیقت کی عکاسی کررہاتھاکہ یہ نوجوان یورپی تعصب کی بنا پر معاشرے میں گھل مل نہیں سکے۔اس سارے معاملے کااسلام سے کوئی تعلق نہیں تھالیکن ایک بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ مسلمان کاایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے نبی اکرم محمدﷺسے اپنی جان ومال ،ماں باپ اوراولادسے زیادہ محبت کا اقرار اور دل میں اس کا یقین نہ کرلے۔ یورپی یونین کے عہدیدارجن میں کمشنر برائے خارجہ تعلقات بینٹافیریرو والڈنر اور سیکورٹی پولیس چیف Javier Solana جیویر سولانہ شامل تھے،نے جہاں اس بات کاجائزہ لینے کا اقرار کیا کہ آیاسیاسی سطح پردرست اصطلاحات کے استعمال سے یورپ اورمسلم ممالک کے مابین موجودہ تنائوکوکم کرنے میں کوئی مددملتی ہے یانہیں، وہاں وہ اپنے طورپربھی اس خلیج کوپاٹنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ان دونوں عہدیداروں نے گزشتہ برس سالزبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے کہاتھاکہ یورپی یونین کو اقوام متحدہ، عرب لیگ اوراسلامی کانفرنس تنظیم کے ساتھ مل کرمسلم ممالک کے ساتھ اعتماد کے رشتہ کوبحال کرنے کیلئے حقائق کا سامناکرتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ ان کی طرف سے یورپی دارالحکومتوں کو ارسال کی جانے والی مجوزہ حکمت عملی میں بھی کہاگیاتھاکہ خارجہ پالیسی کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی مزید تائید داخلی سطح پرسخت قانون سازی کے ذریعے سے کی جانی چاہیے جس کے تحت اسلام کے بارے میں پائے جانے والے خوف کا تدارک کیاجاسکے اوریورپ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ کی فضا کو بہتر بنایا جاسکے۔ یہ اقدامات اورنئی اصطلاحات کااستعمال سالوں پرمحیط غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے کافی نہیں ہوں گے۔ یورپی یونین کے کارپردازوں کا اعتراف ہے کہ مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو بحال کرنے کی جدوجہد طویل اورکٹھن ہوگی اوریورپی مسلمانوں کومرکزی دھارے میں شامل کرنے کیلئے بھی صبروحوصلہ اورثابت قدمی سے کام لیناہوگاتاہم متفکر یورپی پالیسی سازاس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ آغازکہیں نہ کہیں سے کرنا ہی ہوگا،صرف کانفرنسز، سیمینار تک ان نیک ارادوں کومحدودنہیں ہوناچاہئے بلکہ ان تمام کوششوں کاحقیقی زندگی اورمعاشرے میں اس کااوقوع پذیراثربھی دکھائی دیاجاناچاہئے جو ابھی تک خاطر خواہ نظرنہیں آرہا ۔ بہت سے لوگوں کو امیدہے کہ الفاظ اور اصطلاحات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اہل یورپ کے اسلام اورمسلمانوں سے متعلق فرسودہ اوربالعموم تعصب پرمبنی خیالات میں بھی مثبت اورتیزترین تبدیلی اس وقت رونماہوگی جب میڈیامیں مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بنا پرپھیلے ہوئے غلط اورمنفی پروپیگنڈہ کی نفی کرتے ہوئے اس بات کااعتراف کیاجائے اورمغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کوبدنام کرنے کیلئے کیاکیاطریقے اختیارکرتے ہیں اورکس طریقے سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جرائم کی دنیامیں صرف اور صرف مسلمان ہی شامل ہیں،اس یکطرفہ نسلی، مذہبی تعصب پرسختی سے پابندی لگانا ہوگی۔ آئندہ کیلئے اس کوویساہی جرم قراردیاجائے جیسے کہ یورپ اورامریکامیں بسنے والی یہودی کمیونٹی نے ’’ہولوکاسٹ‘‘پرکسی بھی قسم کے تبصرے کوقانونی طورپرجرم قرار دینے کا قانون متعارف کروا رکھاہے۔ یقینا یورپی دانشوروں کی اس تحریک کوعالم اسلام میں بڑی تحسین میسرہوگی جب ان بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرکے اس کے ازالہ کیلئے ایسے عملی اقدامات اٹھائے جائیں اورزمینی حقائق اس کی گواہی دیں۔ جب تک فلسطین، کشمیراورروہنگیامیں ظلم وتشدد کے خاتمے اوران کے مستقل حل کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، اس وقت تک عالم اسلام کومطمئن کرنا از حدمشکل ہوگا۔ پچھلی چاردہائیوں سے زائد افغانستان میں بہتے ہوئے خون ناحق کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگی جہاں اب تک چارملین سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا اور سارے ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ عراق پربے بنیاد الزام لگا کراس کی آدھی سے زیادہ آبادی کوتہہ تیغ کردیا گیا اورقدیم تاریخ بابل ونینواکے امین ملک کانہ صرف حلیہ بربادکردیا گیابلکہ تیل کی بیش بہادولت سے مالا مال ملک کو بری طرح لوٹ کرکنگال کردیاگیا۔اسی پر اکتفانہیں کیا گیا بلکہ عرب اسپرنگ کے نام پرلیبیا اورتیونس کو بھی بربادکر دیا اوراب شام میں مسلکی جنگ کی آڑمیں عالم اسلام میں ایک گہری دراڑ پیداکرکے بڑے پیمانے پرخانہ جنگی کے منصوبوں پرعمل درآمدجاری ہے۔ مسلم ملک ترکی کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی وعسکری ترقی اورمسلمانوں پرہونے والے مظالم پربھرپور احتجاج کرنے والے طیب اردگان کوسزادینے کیلئے پہلے ایک ناکام بغاوت اوراب انقرہ میں اس کے سفیر کوقتل کرواکرایک نئے فساداورخطرناک سازش کی بنیادرکھنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ عالم اسلام کی نوجوان نسل ان تمام حالات کابخوبی جائزہ لے رہی ہے اوریہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگرمشرقی تیمورکامسئلہ ہوتووہ چندماہ میں اس کا اپنے حق میں فیصلہ کروا لیاجاتا ہے،سوڈان کی تقسیم کامعاملہ ہوتووہاں بھی بزور شمشیر اپنا ناجائز حق بھی منوالیاجاتا ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ تمام قیامتوں کا حقدار صرف مسلمان ہی کیوں ہے؟ گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی ابھی سحر کاذکر ہے روایتوں کے درمیاں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں