موٹیویشن کی بھنگ چھوڑو، موو یور ایز!
بلی ہو یا شیر ہو؟ کسی نے کیا بتایا ہے؟
نفسیات کی دنیا میں دو عشرے سے زیادہ عرصہ ہوگیا. دنیا کی 60 سے زیادہ قومیتوں کے ساتھ کوچنگ کے حوالے سے واسطہ رہا. وہاں یہ اندازہ ہوا کہ ہم پاکستانی بہانے بازی میں دنیا میں ٹاپ تین ممالک میں آتے ہیں. باقی دونوں کے بارے میں بھی کبھی گفتگو ہوگی، لیکن آج فوکس اپنے آپ پر ہے.
90 کی دہائی کے آخر میں نفسیات اور پرسنل ڈیویلپمنٹ پر کام شروع کیا. تب موٹیویشنل سپیکرز کا کسی نے نام بھی نہیں سنا ہوگا. تب سے لے کر اب تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہ گیا ہے مگر کچھ چیزیں جوں کی توں ہیں. تب بھی پاکستانی دماغ کو کسی جگاڑ، کسی شارٹ کٹ، کسی کیپسول، کسی تعویذ کی تلاش تھی، اور آج بھی ہے. تب بھی اور آج بھی لاکھوں لوگ ہیں جو سینکڑوں گھنٹے موٹیویشنل گفتگو سنتے ہیں، اشفاق احمد، واصف علی واصف، ٹونی رابنز، برائن ٹریسی، جیک کینفیلڈ وغیرہ کی کتابیں پڑھتے ہیں، جملے انڈر لائن کرتے ہیں، واہ واہ کرتے ہیں. لوگوں کو مرشد کہتے اور بناتے ہیں، مگر وہ کام پھر بھی نہیں کرتے جو انہیں کرنا ہے. اپنے ہڈ حرامائٹس کو کبھی کلچر، کبھی سیاست، کبھی کسی اور پر منڈھتے ہیں. حالانکہ سیدھی سی بات ہے، یا تو کام نہ کرنے کے لیے بہانہ بنایا جاسکتا ہے، یاکام ہر صورت میں کرنے کی وجہ ڈھوندی جاسکتی ہے.
ان گنت پیغامات آتے ہیں، آپ کی کتابیں پڑھ لیں، فلاں کی کتابیں بھی پڑھ لیں،چار سال سے لیکچر بھی اتنے گھنٹے گھول کے پی لیے، مگر افاقہ نہیں ہورہا.
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی بندے کا پتر یا دھی بننے کے لئے سالوں تھراپی نہیں چاہیے، موٹیویشنل سپیکرز کی گفتگو درکار نہیں ہے، ڈھیروں کتابیں نہیں پڑھنی پڑیں گی، مراقبہ نہیں کرنا پڑے کا، چلہ بھی نہیں کرنا ہوگا، بس ایک چیز درکار ہے. فیصلہ کرنا ہوگا، درد سہنا ہوگا اور بدلنا ہوگا. دیٹ از ایٹ!!
یہ لمبے چوڑے نسخے بل شٹ ہیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کا طریقہ ہیں. ہم انسان دو وجوہات کی وجہ ہی سے کوئی کام کرتے ہیں. یا درد سے جان چھڑانے کے لیے یا پھر مزے کی طرف بھاگنے کے لیے. بس ایک فیصلہ کرنا پڑے گا اور تبدیلی آجائے گی.
انسانی دماغ کیسے کام کرتا ہے اور کیافیصلے لیے جاتے ہیں؟ اس بات کو واضح کرنے کے لیے ایک جٹاکی قسم کی مثال دوں گا. سمجھ لیں یہ باتوں کا ہنٹر ہے، اسے گھمانا پڑے گا، موٹیویشن کے ساتھ چھترول کا کمبینیشن زبردست بنتا ہے.
ہم سب دو، تین سال تک کی زندگی تک کپڑوں کے اندر ہی ہگ دیتے تھے( یا پوپتے تھے). ہمارے پاس جو ڈاٹا دستیاب تھا اسی حساب سے یہ آسان ترین طریقہ تھا.
ماں باپ پیپیاں جپھیاں کرتے تھے، گالوں پر بوسے دیتے تجھے اور یہ بتاتے ہوئے کہ تم کتنے کیوٹ ہو، نیا ڈائپر پہنا دیتے تھے اور دوبارہ گندا ہونے کا انتظار کرتے تھے. اب تھوڑی دیر کے لیے سوچیں اپنے آپ کو یا کسی بھی اور جینیس کے بارے میں خیال کریں کہ دو، تین سال کی عمر میں اس نے اماں ابا سے پرزور اصرار کرکے ٹوائلٹ جانے کے لیے کہا ہو. انسانی نفسیات ایسی ہے کہ اگر کپڑوں کے اندر ہگنے پر تالیاں ملتی رہیں گی تو وہ پوری زندگی ایسا ہی کرنے کو ترجیح دے گا. میں آج تک کسی ایسے بچے کے وجود سے ناواقف ہوں جس نے خود بخود اپنا ڈائپر اتار پھینکا ہو اور کہا ہو کہ مجھے ٹوائلٹ لے چلو.
تین چار سال کی عمر میں ہمیں ایک انقلابی مسئلہ درپیش آگیا. ٹاٹلٹ. اب تمہیں اپنے زور بازو پر ہگنا پڑے گا اور خود کو صاف کرنا پڑے گا. ورنہ بگھتو گے. اب جانوں، مانوں بے بی کو چیلنج کا سامنا کرنا ہے.
یہ زندگی میں پہلا بڑا جھٹکا تھا. لگا عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں.
اب ٹوائلٹ میں ہگنے کے لیے دلائل ملاحظہ فرمائیں جو ہم سب کو اس عمر میں دیے گئے :
بڑے بچے ایسا نہیں کرتے
اگر سکول جانا ہے تو یہ عادت بدلنی پڑے گی
اگر ممی کی عزت رکھنی ہے تو عادت بدلو
گندے بچوں کے پاس فرشتے نہیں آتے ہیں
اندر پاٹی کرنے والوں کو شیطان اور جن چمٹ جاتے ہیں.
اوووو، نرا گند ڈال دیا ہے
اوووو، گندے بچے، گندی بو…. تیری تو…..
اوئے پاٹی….. اب یہاں سے آگے گالم گلوچ، تھپڑم مکا، شروع ہوجاتی ہے.
اب تمہارے دماغ ہر یہ افتاد آن پڑی اور فیصلہ کرنا ہڑا تھا کہ یا تو ٹوائلٹ سیکھنا پڑے گا، یا پھر لتر پریڈ شروع ہوجائے گی …. کسی تھراپی کے بغیر، کسی موٹیویشنل سپیکر کو سنے بغیر نارمل بچے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ کیا کرنا ہے. اسے بی ہیویرل شفٹ کہتے ہیں. یعنی پہلے سے سیکھے گئے سسٹم کے برعکس ایک نئے نظم کو نافذ کرنا…. اور اسی شفٹ کی ضرورت ہمیں زندگی میں مسلسل پڑتی رہتی ہے!
2-3 سال کی عمر گزارے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا اور ابھی تک آپ کو دوبارہ کپڑے گندے نہیں کرنے پڑے. یہ میں نارمل زندگی کی بات کررہا ہوں، بیماری وغیرہ مستنشیات میں سے ہیں.
یاد رکھیں یہ درد وہ استاد ہے جو ہمیں وہ فیصلہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے، شفٹ کے مرحلے کو آسان بناتا ہے. اور ہمیں وہ نہیں رہنے دیتا جو ہم رہنا پسند کرتے ہیں.
اب زندگی کے اونٹ پر بیٹھیں گے تو کوہان تو ہوگا. جھٹکے بھی لگیں گے، ہڈیاں بھی ٹوٹیں گی.
سی ایس ایس کرتے ہوئے کچھ ہڈ حرام ایسے بھی دیکھے کو پچھلے دس سال سے لیٹے ہوئے روٹیاں کھا رہے تھے آور گھر والوں سے خرچہ کروا رہے تھے کہ سی ایس ایس کر رہے ہیں. یا یہ کہ ڈیپریشن ہے، سٹریس ہے ابھی اپنے آپ کو موٹیویٹ کر رہے ہیں. ایک دفعہ پھر بیمار لوگوں کی بات نہیں کر رہا، انہیں علاج کرانا ہوگا، مگر نارمل بندے یاد رکھیں، اگلا کام کسی ماہر نفسیات کا نہیں، لتر پولا کرنے والے کا ہے اور اس کی ضرورت زندگی میں ہم سب کو پڑ جاتی ہے جب ہم اپنے کمفارٹ زون میں کمبل پہن کر لیٹ جاتے ہیں.
مسئلہ موٹیویشن کی گفتکو میں یا بولنے والے کی زبان میں نہیں. وہ اصول کارگر ہیں. وہ اثر رکھتے ہیں چاہے موٹیویشن دلانے والا ان پر عمل کرے یا سننے والا /والی. تاہم ایکشن لیے بغیر، درد سے گزرے بغیر کچھ نہیں ہوگا، نہ بولنے والے کے لیے، نہ سننے والے کے لیے!
موٹیویشن آپ کو پمپ کرتی ہے، کرنے پر اکساتی ہے، مگر ساری باتیں سن کر اگر آپ نے ڈائپر میں ہی ہگنا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا. نفسیاتی طور پر لگے گا کہ کچھ ہورہا ہے. لیکن اگر آپ بلی ہیں اور آپ کو باتوں سے شیر بنایا گیا ہے تو میدان لگ گیا تو بلی کے طور پر مرنے کے چانس زیادہ ہیں.
یاد رکھیں اگر آپ موٹیویٹ ہونے پر یقین رکھتے ہی ہیں، اور اپنے آپ کو ورزش کی ترغیب دلانا چاہتے ہیں تو ترتیب یہ رہے گی.
دس منٹ موٹیویشن
ایک گھنٹہ جم
یہ جان لیں کہ دس گھنٹے بھی موٹیویشنل سپیکر کی گفتگو یا راک میوزک سننے سے کوئی کیلوریز کم نہیں ہوں گی. موٹیویشن کو افیون مت بنائیں. ان سے فائدہ اٹھائیں، ان سے کامیاب ہونے کے اصول سیکھیں مگر فوراً ایکشن لیں. واک یور ٹاک. اپنے ڈنڈ نکالنا شروع کریں، یہ کام آپ کو خود ہی کرنا ہوگا. اگر آپ نے کسی کو کسی دروازے کی طرف اشارہ کرتے دیکھا ہے تو وہ دروازہ خود کھولنا ہوگا اور اس میں سے گزرنا ہوگا. فیصلہ کرو، اور کر گزرو. ورنہ یہ ٹھرک جاری رکھو اور شکوے کرتے رہو. اگر اپنے آپ کو سچ مچ بدلنا ہے تو موو یور ایز ناؤ. گیٹ سیٹ، گو!!
عارف انیس
( زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس)
موٹیویشن کی بھنگ چھوڑو، موو یور ایز! – عارف انیس
301