کیمبرج سکولوں میں اردو پڑھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، انگریزی فکشن پڑھنے والے برگر فیملیز کے چشم و چراغ اردو بھی انگریزی لب لہجے میں بولتے ہیں۔ مجھے اکثر اردو الفاظ انگریزی میں ترجمہ کر کے سمجھانے پڑتے ہیں۔
یہ دیسی انگریز گرامر اور تخلیقی لکھائی کا تو جنازہ نکال دیتے ہیں، بعض ہونہار تو سُسر کی مونث سُسری ، اور مرد کی جمع “مردُود” میر تقی میر کو ” میر یقی میر” لکھتے ہیں اور پھر خفا ہو جاتے ہیں کہ آپ نے نمبر کیوں کاٹ لیے۔
ایک دن تخلیقی ٹاپک تھا اور موضوع تھا
” تفریحی مقام کے دورے کی روداد ”
ایک صاحبزادے جس انہماک سے لکھ رہے تھے میرا شک یقین میں بدل رہا تھا کہ اس بار وہ اردو میں خوب جان مار کےآئے ہیں ، تھوڑی دیر بعد پرچہ میرے ہاتھ میں تھا، غور سے پڑھا تو سویوں جیسی لکھائی میں لکھا تھا۔۔۔
” میں ایک بار مری گیا ، وہاں اتنی برف باری ہوئی کہ سردی سے مجھے بخار ہوا ،جو بہت تیز ہوگیا، جس کی وجہ سے مجھے دورے پڑنا شروع ہو گیے ، ابو مجھے ہسپتال لے گیے ، پھر بڑی مشکل سے میرا دورہ ٹھیک ہوا۔
موصوف “تفریحی دورے” کو بیماری والا دورہ سمجھ بیٹھے۔۔۔ مگر ان کا قصور تھوڑی ہے وہ تو میری نااہلی تھی کہ بتا نہ سکی کہ دورے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ۔
ایک روز محاورات کے استعمال کے بارے میں سیر حاصل لیکچر دینے کے بعد جانچ کی خاطر کچھ محاورات جیسے باغ باغ ہونا، رونگٹے کھڑے ہونا وغیرہ کو جملوں میں استعمال کرنے کو کہا۔ جماعت چونکہ او لیول کی تھی اور مجھے معیاری جملوں کی توقع تھی۔
تیسری نشست پر بیٹھے ایک طالب علم نے فورا ً ہاتھ کھڑا کیا۔میں نے ستائشی نظروں سے اسے دیکھا اور کاپی پکڑ لی ،جملہ لکھا تھا
” ہمارے دروازے پر دستک ہوئی ، میں نے کھولا تو سامنے دو رونگٹے کھڑے تھے۔”
اس کے بعد جو ہوا پوری کلاس کو رونگٹے کھڑے ہونے کا مطلب سمجھ آ گیا ۔۔۔
خیر یہ تو میرے ہونہار شاگردوں ایک جھلک تھی، مجھے زعم رہا کہ میرے اپنے صاحبزادے( وہ ابھی 4th سٹینڈرڈ میں ہے) کی اردو نسبتاً اچھی ہے، مگر یہ زعم بھی اکثر خاک میں مل جاتا ہے ۔ چند ماہ پہلے TV پر ڈرامہ ” ڈائجسٹ رائٹر” دوبارہ نشر کیا جا رہا تھا، بیٹا بھی میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے یونہی پوچھا آپ کو” ڈائجسٹ رائٹر ” کا مطلب پتا ہے ؟
“جی، اس کا مطلب ہے
“ہضم ہونے والی رائٹر ”
وہ نہایت آرام سے گویا ہوئے اور ادھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
(آصفہ عنبرین قاضی)