الکامل ابن اثیر کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض بڑے دلچسپ واقعات نظر سے گزرتے رہے مثلا 466ھج کے واقعات میں ابن اثیر لکھتے ہیں کہ اس سال بغداد میں ایسا سیلاب آیا کہ پورا شہر ہی ڈوب گیا ۔ایک تو دجلہ میں طغیانی آئ، اوپر سے وہ بند بھی ٹوٹ گیا جو بغداد کی حفاظت کرتا تھا ۔رات میں بند ٹوٹا اور تیز طوفانی ہواوں کی وجہ سے پانی شہر میں داخل ہو گیا، نالیاں اور کنوئیں بھی پھوٹ بہے، قبرستان زیر آب آ گئے، شہر کے سب سے بڑے ہسپتال یعنی عضدی اسپتال بھی ڈوب گیا، بغداد شہر کی دیوار بھی ڈھے گئ اور متعدد افراد ڈوب کر مر گئے ۔
خلیفہ نے اللہ تعالی کے آگے منت وزاری کی۔۔۔نماز پڑھی ۔۔۔توبہ استغفار کیا ۔
اس سلسلےمیں ایک عجیب حکایت یہ ہے کہ اہل بغداد نے شہر میں گانے والی عورتوں اور شراب کی دوکانوں کی کثرت کی شکائت کی تھی۔ایک شخص نے ایک گانے والی عورت کے آلہ موسیقی کو توڑ دیا تھا، جس پر اس عورت کے طرفداروں نے اس شخص پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا، جس پر ہنگامہ مچ گیا، اس احتجاج میں بہت سی مذہبی شخصیات بھی شامل ہو گئیں، جن میں ابو اسحاق شیرازی بھی تھے ۔ان سب نے مل کر خلیفہ سے شراب کے اڈوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔خلیفہ نے وعدہ کیا کہ وہ اس بارے میں سلطان سے بات کریں گے ۔دربانوں نے لوگوں سے کہا کہ ہم نے سلطان کو خط لکھ دیا ہے اب جواب آنے تک آپ لوگ صبر کریں ۔
جب مذکورہ سیلاب آیا تو(ایک عالم ) شریف ابو جعفر نے کہا: ” ہم نے بھی خط لکھا اور تم نے بھی خط لکھا ۔ہمارے خط کا جواب تمھارے جواب سے پہلے ہی آ گیا ” (یعنی ہم نے اپنی مصیبت کی شکائت اللہ تعالی سے کی اور وہاں سے یہ جواب آیا کہ بغداد غرق ہو گیا ۔تم ابھی اپنے خط کے جواب کا انتظار کر رہے ہو )
حالیہ بارشوں میں جب کراچی ڈوب گیا تو لگا کسی نے اللہ تعالی کو خط لکھ دیا ہے ☹
( نگار سجاد ظہیر )