ہمارے قائدین کے ادھورے وعدے: ایک گاؤں کی التجا

73

تحریر: ریاض گیلانی

جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے ہمارے قائدین کے آزاد کشمیر کے عوام سے کیے گئے ان گنت وعدے یاد آرہے ہیں۔ ترقی، ترقی اور خوشحالی کے وعدے۔ لیکن، جب میں اپنے گاؤں کے ارد گرد دیکھتا ہوں، تو مجھے ادھورے خوابوں اور بکھری ہوئی امیدوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی سہولیات کی کمی ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ہم ہر روز سامنا کرتے ہیں۔ ہمارے بچے خستہ حال اسکولوں میں جانے پر مجبور ہیں، ہمارے بیماروں کو جدید طبی سہولیات تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے، اور ہمارے نوجوانوں کے پاس پھلنے پھولنے کے مواقع نہیں ہیں۔

ہم آزاد کشمیر کے عوام اپنے لیڈروں کے وفادار رہے ہیں، الیکشن کے بعد انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا؟
خالی وعدوں اور جھوٹی یقین دہانیوں کے سوا کچھ نہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے قائدین بیدار ہوں اور ہماری حالت زار کا نوٹس لیں۔ ہمیں الفاظ کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیاست کی نہیں ترقی کی ضرورت ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، امتیاز نہیں۔

آئیے آزاد کشمیر کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مل کر کام کریں۔ ایک ایسا مستقبل جہاں ہمارے بچے امید اور مواقع کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ ایک ایسا مستقبل جہاں ہمارے لوگ عزت اور فخر کے ساتھ رہ سکیں۔ گیند آپ کے کورٹ میں ہے قائدین۔ کیا آپ چیلنج کا مقابلہ کریں گے، یا آپ ہمیں مایوس کرتے رہیں گے؟

میں اپنے لیڈروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ہمارے گاؤں کا دورہ کریں، زمینی حقیقت دیکھیں، اور ہمارے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ ہم چاند نہیں مانگ رہے ہم بنیادی انسانی حقوق مانگ رہے ہیں۔ آئیں ایک بہتر آزاد کشمیر کی تعمیر کے لیے ہاتھ بٹائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں