پاکستان میں ذیابیطس کا مرض وبائی صورت اختیار کر گیا ہے اور انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کی شرح 17.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے، بدقسمتی سے ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت اپنی بیماری سے لاعلم ہے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں رہتی ہے۔
ان مریضوں کی اکثریت جدید ٹیکنالوجی خصوصا ًٹیلی میڈیسن کے ذریعے ذیابیطس کے ماہرین سے مشورہ کرکے صحت مند زندگی گزار سکتی ہے، پاکستان میں صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی خصوصاً ٹیلی میڈیسن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے مریض بھی علاج معالجے کی سہولیات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔
ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر سعید قریشی نے عالمی یوم ذیابیطس کے موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں پہلے ای طب ٹیلی میڈیسن کلینک کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ذیابیطس کے مریضوں کے لیے پاکستان کا پہلا ای طب ٹیلی میڈیسن کلینک ڈاؤ یونیورسٹی کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرائینولوجی میں قائم کیا گیا ہے، جس کے لیے مقامی دوا ساز ادارے فائیو نے کمپیوٹر ہارڈ ویئر، موبائل سافٹ ویئر اور ایپلی کیشن فراہم کی ہیں۔
اس موقع پر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرائینولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اختر علی بلوچ، ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر زرناز واحد، فارم ایوو کے ڈائریکٹرز منصور خان، محسن شیراز، عمیر مغل سمیت ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹرز اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے ایسے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جنہیں اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہے اور اکثر ایسے مریض جب آپریشن تھیٹرز میں لائے جاتے ہیں تو ان کے خون میں شوگر کی مقدار 500 تک بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے ضروری آپریشن ملتوی کرنا پڑ جاتے ہیں۔
پروفیسر سعید قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ذیابیطس کی وبائی صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر موبائل فون ایپلی کیشنز سے استفادہ کیا جائے اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ایسے مریضوں تک پہنچا جائے جن میں اب تک اس مرض کی تشخیص ہی نہیں ہوسکی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مریضوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال کے متعلق آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں کروڑوں افراد موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن وہ اس سہولت کو اپنے امراض کی تشخیص اور علاج معالجے میں استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس موقع پر پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ جلد ہی ڈاؤ یونیورسٹی کے وہ تمام ٹیلی میڈیسن کلینک بحال کر دیے جائیں گے جو کہ کرونا کیسز میں کمی آنے کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے تاکہ مریضوں کو سہولیات فراہم کی جا سکے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹیز اینڈ اینڈوکرائینولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اختر علی بلوچ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں مریضوں کے لیے بے شمار مشکلات پیدا ہوئیں جس کی وجہ سے وہ اسپتالوں میں نہ پہنچ سکے لیکن اس کا حل ٹیکنالوجی کی مدد سے نکال لیا گیا ہے اور اب پوری دنیا میں ڈاکٹر ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اپنے مریضوں سے نہ صرف رابطے میں ہیں بلکہ انہیں بہترین مشورے فراہم کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں قائم ای طب ٹیلی میڈیسن کلینک اپنی نوعیت کی واحد سہولت ہے جس کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقوں سے لاکھوں مریض ذیابیطس کے ماہرین سے رابطہ کرکے علاج معالجے کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔
ڈاکٹر اختر بلوچ نے کہا کہ ذیابیطس میں مبتلا لاکھوں مریض اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ وہ دور دراز کے علاقوں سے کراچی جیسے شہروں میں آئیں، ہوٹلوں میں قیام کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی فیس اور ادویات کا خرچہ بھی برداشت کرسکیں۔
ان مسائل کا حل ٹیلی میڈیسن میں ہے جس کے ذریعے بلوچستان میں تربت یا سندھ کے ٹھل جیسے دور دراز علاقوں میں مریض بھی اپنے موبائل فون کے ذریعے کراچی کے ماہر ترین ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے اپنی ادویات تجویز کر سکتے ہیں جبکہ ڈاؤ یونیورسٹی کی لیبارٹریوں کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے جہاں سے وہ اپنے ٹیسٹ کروا کر اپنی صحت کے متعلق آگاہی اور اپنی بیماری کے علاج میں مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دیگر اداروں کو بھی آگے آنا چاہیے اور مریضوں کی سہولت کے لیے اس طرح کے مزید منصوبے شروع کرنے چاہیے۔
مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے کمرشل ڈائریکٹر منصور خان نے اس موقع پر بتایا کہ انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی کو جو سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجی فراہم کی ہے وہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں دور دراز کے علاقوں میں بیٹھے ہوئے مریضوں اور شہروں میں بیٹھے ڈاکٹروں میں فاصلے ختم ہو گئے ہیں اور اب مریض اور ڈاکٹر ہزاروں کلومیٹرز کے فاصلے پر ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کر سکتے ہیں۔