پاکستانی ہدایتکار ابو علیحہ نے موٹر وے زیادتی سانحہ رونما ہونے کے بعد اس پر سامنے آنے والے عوامی ردعمل پر فلم ’شینوگئی‘ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
فلم کا ٹائٹل پشتو زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’سبز آنکھوں والی لڑکی ‘، فلم کو زیمیز پروڈکشنز اور میٹرو لائیو موویز نے پروڈیوس کیا ہے۔
فلم کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لاہور موٹروے زیادتی کیس کے بعد پاکستانی معاشرے میں عورت کے تحفظ سے متعلق متضاد بیانات سامنے آئے اور بہت سے سوالات بھی کئے گئے، فلم ’شینوگئی‘ میں عوامی ردعمل سے متعلق بہت سے جوابات ہیں۔
انہوں نے اپنے متعدد سوشل میڈیا پیغامات میں اپنی فلم کے حوالے سے بتایا کہ ’شینوگئی‘ کے مرکزی کردار کے لئے ایسی لڑکی درکار تھی جو ہیوی بائیک ناصرف چلانا جانتی ہو بلکہ اس پر ہلکے پھلکے اسٹنٹس بھی کرسکے۔
ابو علیحہ نے کہا کہ دو چوائسز تھیں کہ کسی اداکارہ کو لیا جائے اور اسے بائیک چلانا سکھایا جائے یا پھر کسی بائیکر کو لیا جائے اور اسے اداکاری سکھائی جائے۔
ہدایتکار نے بتایا کہ سینماٹو پروڈکشنز میں آڈیشن منعقد کئے گئے۔ ہر دس میں سے آٹھ فی میلز بائیکر نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ کو بائیک چلانی کس نے سکھائی، مرینہ سید کا نام لیا تو انہیں بلوالیا گیا۔
ابو علیحہ نے لکھا کہ یونس خان، شزا ہاشمی ، عروج بنت ارسلان نے آرٹس کونسل میں اور کامران راؤ اور ان کی ٹیم نے سینماٹو پروڈکشن میں مرینہ پر خوب محنت کی۔ مرینہ نے کیسی اداکاری کی، یہ آپ انہیں سینما اسکرین پر دیکھ کر بتائیں گے۔
یہ پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس میں سارے اداکار پہلی بار سینما سکرین کا سامنا کرنے آرہے ہیں۔ انہوں نے آج تک کسی ٹی وی ڈرامہ تک میں کام نہیں کیا ہے۔
فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی مرینہ پروفیشنل بائیکر ہیں اور کراچی کے ایک کلب میں فی میل بائیکرز کو بائیک چلانا سکھاتی ہیں اور باقی سب اداکار لیاری و آرٹس کونسل و ناپا کے تھیٹرز سے تعلق رکھتے ہیں۔
فلم ’شینوگئی‘ کے مرکزی خیال کے حوالے سے ابو علیحہ نے بتایا کہ ’فلم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ’عورت ٹول نہیں ہے۔ عورت جنس نہیں ہے۔ عورت خواہ آپ کی بیٹی بہن ماں بیوی نہ ہو، فقط عورت ہونے کی وجہ سے بھی قابل احترام اور لائق عزت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہر گھر سے باہر نکلی ہوئی عورت ترنوالہ نہیں ہے۔ اس کا لباس ترغیب نہیں ہے۔ اس کا مسکرانا چلنا پھرنا لائسنس ٹو ریپ نہیں ہے، یہی شینوگئی کا مرکزی خیال ہے۔‘